،،،،، کیا ہم بھی انسان ہیں؟ ،،،،،
قلم کو بنانے والے نے لکھنے والے کو یہ اختیار دیا کہ تو سیاہی سے لکھ یا خون سے ، بہت ہی کم لوگ قلم کے ساتھ جوڑتے ہیں، کیونکہ بندوق کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل نہیں، لیکن قلم کے ساتھ حق لکھنا بہت ہی مشکل کام ہے،
اللہ نے قلم پیدا کیا قلم پے لکھنے کے قابل ہونے کے لئے معلم پیدا کیا، کتنی محنت کتنی مشاقتوں کے بعد بندہ اس قابل ہو جاتا ہے، کہ وہ قلم پے لکھ سکے، لکھنے والے بڑے حساس ہوتے ہیں، اس کو ہر کوئی سمجھ نہیں سکتا ، کیونکہ وہ احساس لکھتے ہیں اور لوگ الفاظ پڑھتے ہیں، ،
لکھنے والے، سوشل ورکر ، اچھے کام کرنے والوں کو ایک بیماری ہوتی ہے ، جسے عرف عام میں ہر بات میں ٹانگ اڑانا کہتے ہے، یہ جب بھی کوئی اچھا یا برا کام دیکھتا ہے، اس کا اور اس کے دل و دماغ کا جھگڑا شروع ہو جاتا ہے، دل کہتا ہے لکھ ، معاشرے کی اچھائی،یا برائی کو سامنے لا ، لوگوں کو خبردار کر، کسی کو اپنے بس کے مطابق خیر پہنچا ، جبکہ دماغ کہتا ہے، روک جا ٹھہر جا، پہلے سوچوں لوگ کیا کہیں گے، لوگ کیا سوچیں گے، فلاں ناراض ہو جائے گا، فلاں سے رشتہ داری ختم ہو جائی گی، دوست برا مان جائیں گے، لوگ تمھیں گالیاں دینگے، اور تمھارے بھائیوں، بیٹوں کی غیرت یہ گوارا نہیں کرینگے ، وہ تم سے ناراض ہو جائینگے، سوچیں گے ، ہمیں زمانے میں رسوا کیا ، لوگ لکھاری کے ساتھ ساتھ ہم پر بھی ہنسے گے، وغیرہ وغیرہ، ،،
عمر بھر لکھتے رہے پھر بھی ورق سادہ رہا
جانے کیا لفظ تھے جو ہم سے تحریر نہ ہوئے
پرانے زمانے کے بادشاہ اپنا تاریخ لکھوانے کے لئے کاتبوں کو رکھتے تھے، ان سے اپنی مرضی کا تاریخ لکھواتے تھے ، اپنی بادشاہی اپنی ہمدردی کو افسانوی طرز تحریر دیتے تھے، اب جو لفافے ہوتے وہ وہی لکھتے تھے ، جو بادشاہ بولا کرتا تھا لیکن جو کاتب تھے ، جس کے دل و دماغ ایک دوسرے کے مخالف تھے ، وہ حقیقت لکھتے تھے، اور اکثر پابند سلاسل رہتے تھے، کیونکہ قصیدے، تعریفیں، سفرنامے، افسانے ، ڈرامے، خیالی قصے کہانیاں تو ہر کوئی بڑے شوق سے پڑھتا ہے، لیکن جب بات آئینہ دیکھانے کا آئیے، تو لوگ پریشان، خفا ہونا شروع ہو جاتے ہیں، کیونکہ حق کہے گا ، حق بولے گا ، حق دکھایا گا ، یا حق جئے گا، تو مار دیا جائے گا،زندگی تنگ کر دی جائی گی ، تعلقات محدود ہونا شروع ہو جائینگے،
چالیس سال سے صادق اور امین کے نام سے مشہور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب نعرہ حق بلند کیا، تو وہ جادوگر، دین سے روگردان، (نااعوذبالله) اور پتہ نہیں کون کونسے الزامات کے ساتھ پکارا جانے لگا، حق کہنا ، سیدھی راہ دیکھنا برائی پر تنقید کرنا، اور روکنا ، سیدھی راہ دیکھنا ، سیدھی راہ پر چلنا تو میرے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سنت مبارک ہے، تو کیوں ایک لکھاری بکتا ہے، کیوں اپنے قلم کو اپنے نظریے کو ، اپنے آواز کو ثمنه قليلا پر فروخت کرتا ہے، ،
مجھ سے کیا بات لکھانی ہے کہ اب میرے لیے
کبھی سونے کبھی چاندی کے قلم آتے ہیں
دل بہت اداس ہے، دماغ سن ہونے کے قریب ہے، اپنے ملک کے حالات پر نظر دوڑاتا ہو، تو ناامیدی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا، کیسا ملک بن گیا ہے ، یہ وہی ملک ہے جو لا إله إلا الله، کے نام پے آزاد ہوا تھا، کیا یہ وہ ملک ہے جو علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خودی کے نظریے کو فروغ دینے کے لئے آزاد ہوا تھا، کیا یہ وہی ملک ہے ، جس کے لئے جناح رحمتہ اللہ علیہ نے محنت کی، کہ یہاں انصاف ہوگا، یہ ملک ہے یا کوئی بالی وڈ کی فلم کہ گناہگار کو تحفے تحائف دیئے جا رہے ہیں، اور بے گناہ کو پھانسی کے پندے پر لٹکایا جارہا ہے، سڑک کے بیچوں بیچ مارا جا رہا ہے، ارشد شریف صاحب ہم شرمندہ ہیں، اور آپ کو بھی شرمندہ ہونا چاہیے کہ آپ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے، جو اپنے باشندے کے بارے میں کسی سے بات بھی نہیں کرسکتا، مجھے نہیں معلوم کہ کیوں اور کسی نے تجھے شہید کیا، لیکن میرے زھن میں امریکی باشندے کی فلم چل رہی ہے، جو میرے ملک میں نشے کے حالت میں گاڑی کو بے گناہ پاکستانی پر چڑھا دیتا ہے، اور باعزت اپنے ملک روانہ ہوجاتا ہے، اللہ فرماتا ہے، کہ یہ کفار ڈرپوک ہیں، ڈرتے ہیں، موت سے ، تنگ دستی اور فقر سے، لیکن میرے حکمران یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ وہ سپر پاور ہے، مالدار ہیں ترقی یافتہ ہیں، ان کے شہری پر ہاتھ ڈالے گے ، تو پتھر کے زمانے میں پہنچا دینگے،،
ارشد شریف صاحب تم ہم جیسے نااہل لوگوں کی دیس میں کیوں پیدا ہوا؟ سب سے بڑی غلطی تمھاری یہ ہے اور اس سے بڑی غلطی حق بولنا، حق لکھنا، تم کو کیوں چھوڑا جاتا، اتنے بڑے گناہ، اتنے پاک ملک میں، ،،
آنا لله وانا اليه راجعون، ، اللہ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین، ،
ابھی تک میری نظر سے کوئی خبر تو ایسی نہیں گزری کہ پاکستانی حکومت نے کنیا سے اپنے باشندے کے بارے میں دو ٹھوک بات کی ہے، کہ کیوں ہمارے شہری کو شہید کیا گیا،؟
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
وما علینا الالبلغ
تحریر #ارشدحسین
Comments
Post a Comment