*ایک سعودی تاجر کا بیان ہے کہ میں اور میرا دوست سعود شہر بریدہ میں تجارت کرتے تھے۔*
*ایک دن میں جمعہ کی نماز کے لیے بریدہ کی مسجد الکبیر میں گیا ،*
*نماز جمعہ کے بعد جنازہ کا اعلان ہوا،*
*نماز جنازہ ادا کی گئی لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ کس کا ہے،*
*پتہ چلا کہ یہ جنازہ میرے ہی دوست سعود کا ہے*
*جو گزشتہ رات ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گیا تھا.*
*مجھے سُن کر انتہائی صدمہ پہنچا*
*یہ سن 1998 یعنی کوئی 22 برس پہلے کی بات ہے،*
*اس وقت ابھی موبائل فون عام نہیں ہوا تھا*
*چند مہینے گزرنے کے بعد وہاں کے ایک دکاندار نے مجھ سے بات کی کہ مرحوم سعود کے ذمے میرے 3لاکھ ریال ہیں*
*تو آپ میرے ساتھ چلیں ہم جا کر اس کے بیٹوں سے بات کریں*
*اور یہ بات پہلے سے میرے علم میں تھی کہ سعود کے ذمہ یہ قرض ھے۔*
*چنانچہ ہم مرحوم کے بیٹوں سے جا کر ملے*
*بات چیت ہوئی تو انہوں نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے رقم لوٹانے سے صاف انکار کردیا ۔*
*اور کہا کہ ہمارے باپ نے تو صرف 6لاکھ ریال چھوڑا ہے*
*اگر 3لاکھ ہم آپ کو دیتے ہیں تو پھر ہمارے پاس کیا بچے گا...؟؟؟*
*اس دور میں بہت سا لین دین باہم اعتماد پر ہوتا تھا*
*چنانچہ ہم واپس آ گئے*
*یوں وقت گزرتا گیا*
*لیکن ہر وقت مجھے سعود کی یاد ستاتی رہی*
*یہی سوچتا رہا کہ نہ جانے قرض نہ چکانے کی وجہ سے قبر میں اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہو گی"*
*ایک دن میں نے اپنے پیارے دوست کا قرض اتارنے کا عزم کر لیا*
*اس ارادے کے بعد پھر مجھے دو دن تک نیند نہیں آئی*
*جب بھی میں سونے کے لئے آنکھیں بند کرتا تو سعود کا مسکراتا چہرا میرے سامنے آ جاتا ،*
*گویا وہ میری مدد کا منتظر ہو* *تیسرے دن میں نے اپنے عزم کو عملی جامہ پہناتے ہوے اپنی دکان سامان سمیت فروخت کر دی،*
*اور دیگر جمع پونجی اکٹھی کی تو میرے پاس 4 لاکھ پچاس ہزار ریال جمع ہو گئے*
*تو فورا 3 لاکھ ریال سے دوست کا قرض ادا کیا*
*جس سے مجھے دلی سکون ملا*
*اس ادائیگی کے 2 ہفتے بعد وہی شخص جس کو میں نے 3 لاکھ ادا کئے تھے*
*میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے اپنا سب کچھ بیچ کر یہ پیمنٹ کی ہے ۔*
*لہذا میں 1 لاکھ ریال سے دستبردار ہوتا ہوں،*
*یہ کہ کر اس نے 1 لاکھ ریال مجھے واپس کر دیا*
*اور مارکیٹ میں دوسرے تاجروں کے ساتھ بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا*
*کہ مخلص دوست نے کمال کی مثال قائم کر دی ہے*
*چند دن گزرے کہ ایک تاجر کا فون آیا*
*اسنے پیشکش کی کہ میرے پاس دو دکانوں پر مشتمل ایک سٹور ہے جو میں آپ کو بلا معاوضہ دینا چاہتا ہوں*
*میں نے اس کی پیشکش کو قبول کیا مزدور لگا کر دکانوں کی صفائی کی*
*اسی دوران سامان سے لدا ہوا ایک بڑا ٹرک دکانوں کے سامنے آ کر رکا* *جس میں سے ایک نوجوان نیچے اترا*
*سلام کے بعد کہنے لگا کہ میں فلاں تاجر کا بیٹا ہوں۔
*یہ سامان میرے ابا جان نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سامان بیچ کر اس کی نصف قیمت آپ ہمیں لوٹا دینا*
*اور باقی آدھا مال ھماری طرف سے تحفہ ہے اور آئندہ جتنے مال کی ضرورت ہو ہم سے ادھار لے کر فروخت کر کے پیمنٹ کر دیا کریں* *لوگ جنہیں میں جانتا نہیں تھا ۔*
*چاروں طرف سے میرے ساتھ تعاون کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے*
*اللّٰہ تعالیٰ نے وہاں وہاں سے میری مدد کی، رزق کے دروازے کھول دیے جہاں سے میرا وہم و گمان بھی نہیں تھا۔۔۔*
*اور تھوڑے ہی عرصے میں میرا بزنس پہلے سے دگنا ہو گیا*
*المختصر*
*1436ھ کے رمضان المبارک میں، میں نے 3 ملین ریال اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی ہے!!*
*يہ كوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے.,.*
*سیدِ کائنات رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان گرامی کس قدر سچا ھے کہ*
*"جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رھتا ھے اللہ تعالٰی بھی اس کی مدد کرتا رھتا..😇
Comments
Post a Comment