گلیلیو کی زمین جو سورج کے گرد گھومتی تھی!!!
اگر آپ پاکستان کے کسی معقول سکول میں پڑھے ہیں تو آپ شاید بچپن سے سنتے آئے ہونگے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے. تو یہ بات سائنسی طور پر درست ہے کہ زمین سورج کے گرد ہی گھومتی ہے۔ یہ خیال پہلی بار انسانی تاریخ میں 230 قبل مسیح میں ملتا ہے جبAristarchus
جو ایک یونانی فلاسفر تھے، نے یہ خیال پیش کیا کہ زمین دراصل سورج کے گرد گھومتی ہے۔
یہ Heliocentric ماڈل تھا جسکے مطابق سورج کائنات کے مرکز پر ہے اور تمام سیارے بشمول زمین اسکے گرد گھومتے ہیں۔ مگر آج ہم جانتے ہیں کہ نظام شمسی ہماری کہکشاں ملکی وے کا ایک محض ایک معمولی سا حصہ ہے اور کائنات میں ہماری کہکشاں یا اس سے بھی بڑی کئی کہکشائیں اربوں کی تعداد میں موجود ہے۔ تاہم اس زمانے میں Aristarchus کے اس خیال کو ثابت کرنا مشکل تھا۔
انسانی تاریخ میں یہ خیال یونانیوں سے بعد میں آنے والی کئی تہذیبوں میں آیا اور اثر انداز بھی ہوا۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ خیال انسانی تاریخ میں بالکل نیا ہے، غلط ہو گا۔
البتہ تاریخ میں اس خیال سے زیادہ یونانی فلاسفر ارسطو کا یہ خیال زیادہ مقبول عام رہا کہ زمین جامد اور کائنات کا مرکز ہے اور سورج، چاند اور تمام سیارے، ستارے اسکے گرد گھومتے ہیں۔
1608 میں عدسے بنانے والے ڈچ موجد Hans Lippershey نے دوربین ایجاد کی۔اسکے ایک سال بعد 1609 میں اٹلی کے مشہور سائنسدان اور ماہر فلکیات گلیلیو نے اپنے طرز کی ایک اور دوربین ایجاد کی۔
گیلیلیو نے جب دوربین کو آسمانوں کی جانب موڑا تو اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
اسے مشتری کے گرد گھومتے چاند نظر آئے۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی انسان نے کسی دوسرے فلکی جسم کے گرد گھومتی کوئی اور شے دیکھی تھی۔ اس نے گلیلیو کا زمین اور کائنات کے بارے میں خیال بدل کر رکھ دیا۔
اسی طرح جب گلیلیو نے سیارہ عطارد کو دیکھا تو وہ
بھی ہمارے چاند کیطرح گھٹتا بڑھتا دکھائی دیا مگر دنوں کی بجائے مہینوں میں۔۔گلیلیو کے مطابق یہ تب ہی ممکن تھا کہ عطارد، زمین کے مدار سے زیادہ قریبی مدار میں سورج کے گرد گھوم رہا ہو۔
چونکہ اس زمانے میں اور اس سے پچھلے زمانوں میں لوگ ارسطو کے خیال کو مانتے تھے جس میں زمین ساکن اور کائنات کا مرکز تھی۔ لہذا جب 1616 میں گلیلیو نے یہ اعلان کیا کہ زمین دراصل سورج کے گرد گھومتی ہے تو چرچ نے اسے تنبیہ کی کہ اس خیال کا پرچار مت کرے۔اس تنبیہہ کے بعد گلیلیو کو اجازت دی گئی کہ وہ اس خیال کے بارے میں لکھ تو سکتا ہے مگر یہ کہہ کر یہ محض ایک مفروضہ ہے، حقیقت نہیں۔۔گلیلیو یہ مان گیا۔
اس واقعے کے 16 برس بعد یعنی 1632 میں اس نے دوبارہ ایک مکالمہ :
Dialogue on the Two World Systems”
کے نام سے شائع کیا جس میں پھر سے اپنے خیال کی تائید کی تو چرچ نے پھر اسے دھر لیا۔اس پر مقدمہ ہوا مگر کمزور دلائل کی بنیاد پر گلیلیو پر فردِ جرم عائد نہیں ہو سکتا تھا۔
تاہم چرچ نے اسے کہا کہ وہ یہ تسلیم کرے کہ اُس نے اپنے نظریے کو جتانے کی غرض سے بڑھ چڑھ کر مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ گیلیلو یہ ماننے کو تیار ہو گیا ۔ اس جبری اقرار کے بعد گلیلیو کو ایک دن جیل میں رکھا گیا۔، اسکی کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی اور سزا کے طور پر مرتے دم تک وہ اپنے گھر میں جبری طور پر محصور رہا۔
19 وی صدی میں دوربینیں جدید ہوئیں۔ان جدید دوربینوں سے ماہرین فلکیات نے زمین کے قریبی ستاروں کو دیکھنا شروع کیا۔ اُنہوں نے مشاہدہ کیا کہ زمین سے دکھتے قریبی ستارے دور کے ستاروں کے تناظر میں، سال کے مختلف مہینوں میں آسمان میں اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں۔ یہ فرق اتنا معمولی تھا کہ عام آنکھ سے نظر نہیں آ سکتا تھا۔ اسے stellar parallax کہا جاتا ہے۔ ستاروں کی پوزیشن میں یہ معمولی فرق تب ہی آ سکتا ہے جب زمین سورج کے گرد سال کے مختلف مہینوں میں مختلف جگہوں پر ہو۔ جسکا مطلب یہ تھا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ زمین کا سورج کے گرد گھومتے کا پہلا باضابطہ ثبوت تھا۔ گلیلیو صحیح تھا!!!
آج ہم جدید دور میں خلا سے زمین کو سورج کے گرد گھومتا دیکھ سکتے ہیں۔
گلیلیو سائنس اور حقیقی علم انسانییت تک پہنچانے کے جرم میں فرسودہ نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا۔
گلیلیو کے جانے کہ 350 سال بعد یعنی 1992 میں دنیا بدل چکی تھی۔ پہلی خلائی دوربین یبل خلا میں بھیجی جا چکی تھی۔ سائنس ہر شعبے میں انسانیت کی خدمت کر رہی تھی۔ ایسے میں 31 اکتوبر کے ایک یخ بستہ دن ، ویٹیکن میں نئی دنیا کے عیسائیت کے سب سے بڑے رہنما John Paul II ، بھرے مجمع میں آتے ہیں اور بلامشروط گلیلیو سے چرچ کے رویے کی معافی مانگتے ہیں۔ ساڑھے تین سو سال بعد چرچ کو گلیلیو کا نظریہ ماننا پڑا کیونکہ وہ سائنسی حقائق پر مبنی تھا۔
انیسویں صدی کے مشہور فرانسیسی شاعر اور ناول نگار وکٹر ہوگو نے ایک بار کہا تھا:
"کوئی بھی شے اس خیال سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتی جسکا وقت آ چکا ہو"
سائنس کا وقت آ چکا تھا۔ سائنس کا وقت آ چکا ہے۔
#Copy from the wall of Doctor Hafizul Haq
Comments
Post a Comment